پرانی موحببت
Author Shazia Altaf Hashmi
وہ بشریٰ کی بکواس ان سنی کرتے ہویے جھاڑو پوچے میں لگی رہتی . شوہر کی محبت اور توجہ سے تو محروم ہو ہی چکی تھی ' مگر زندہ رہنا تو اس کا حق تھا . اسے کاشف کے پاس ہی رہنا تھا اور کوئی شکایت یا روک ٹوک نہیں کرنی تھی ' چپ رہنا تھا 'مگر بشریٰ کی ہنسی ' گپ شپ ' کھنچا تانی گو کے اب وہ درمیان سے نکل گئی تھی مگر روح پر بوجھ تھا ' آنکھوں میں آنسو تھے ' جنھیں وہ کم ہی سنمبھال پائی . پہلے پہل وہ کاشف کو ایک نیک انسان سمجھتی رہی جسے سب کا خیال تھا . اسے سب کا خیال تھا بس صدف کا نہ تھا . یہ دھوکہ اس نے خود کو بھی دیا تھا اور دنیا نے بھی اسے دیا تھا .
اسے سب کی مدد کرنا تھی سب کا دکھ محسوس کرنا تھا سواے صدف کے . وہ کاشف کی نظر اور دل دونوں میں نہیں تھی .
اس کے لاڈ ' فرمائشیں شادی کے اولین دنو کی طرح غائب ہو گئیں تھیں . کیونکہ اس سب میں بھی بشریٰ موجود تھی اور صدف کو ہر اس چیز سے نفرت تھی جس میں بشریٰ جیسی ہلکی عورت ہو . وقت نے اسے ریشمی کپڑے کی طرح کانٹوں پر گھسیٹا تھا اور وہ گھسٹتی گئی تھی . وہ دو سال نہیں گزرے تھے ' دو صدیاں گزری تھیں . بشریٰ اور اسکی ماں نے ثابت کیا تھا کے وہ ماں کے نام پر دھبّہ ہیں . کاشف نے اس پر ہاتھ اٹھا کر اسکی دل آزاری کی آخری حد بھی پار کر لی تھی . وہ جتنی بھی روشن خیال یا لبرل ہوتی وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی . بشریٰ کو گھسیٹ کر گھر سے باہر نکالنے کی اس میں ہمت نہ تھی . بشریٰ کو نکالتی تو وہ ظالم بنتی تھی . اس کی ماں کو کچھ کہتی تو بے ادب ہوتی اور سبین کو نظر انداز کرتی ' اس سے نفرت کرتی تو بچے سے محروم سائکو کہلاتی . زندگی نے اس پر اپنے دروازے کچھ اور اس طرح بند کر لئے تھے کہ اسکی ساس جو کل تک بشریٰ سے نفرت کرتی تھیں اور اسے کاشف سے دور رکھنے کے لئے انہوں نے کاشف کی صدف سے شادی کروائی تھی وہ بھی آج بشریٰ سے متاثر ہو گئیں تھیں . بشریٰ پہلے لاہور میں رہتی تھی پھر اس نے اپنے آبائی گھر میں جو کاشف کے گھر سے متصل تھا ' وہیں شفٹ ہونے کا ارادہ کر لیا تھا . مگر اسکی ساس نے صدف کو کاشف کے ساتھ بھیج کر تمام راستے بند کرنا چاہے تھے . وہ سب بند دروازے کھول چکی تھیں . ماں نے بزرگی کا چولا اوڑھا تو بیٹی نے مظلومیت کا اور کامیاب رہیں .
Khan sss
29-Nov-2021 10:34 AM
Good
Reply